واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

 حضرت  علی بن ابی طالب

 

کرم اللہ وجہہ

آپ  کا اسم گرامی  مبارک علی  لقب اسد اللہ ، حیدر کرار ، اور مرتضیٰ ہے۔آپ کی کنیت ابوتراب اور ابو الحسن ہے۔ آپ رجب کی تیرہ تاریخ (عام الفیل )کو شہر مکہ میں خانہ کعبہ میں پیدا ہوۓ ۔ آپ کے والد کا نام ابوطالب اور والدہ کا نام فاطمہ بنت اسد ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 حضرت علی   رضی اللہ تعالٰی عنہ  پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺکے چچا زاد بھائی ہیں۔بچپن میں حضور ﷺکی خواہش کے مطابق  حضرت ابو طالب نےحضرت علی  کرم اللہ وجہہ کی کفالت  آپ ﷺ کے سپرد کر دی ۔لہذا آپ کی  پرورش حضرت محمد ﷺ کی زیر نگرانی ہوئی ۔ حضرت علی   رضی اللہ تعالٰی عنہ  پہلے مرد تھے جنہوں نے اسلام کو قبول کیا ۔ آپ کی عمر اس وقت تقریبا دس یا گیارہ سال تھی۔

بوقت ہجرت حضور ﷺ نے آپ کو اپنی چادر اوڑا کر اپنے بسر پر لٹا دیا اور فرمایا کہ  لوگوں کی جو امانتیں میرے پاس ہیں ۔ان کو واپس لوٹا کر تم بھی مدینے چلے آنا ۔چنانچہ  آپ لوگوں کو ان کی امانتیں  لوٹا  کر بہت جلد ہجرت کرکے مدینہ منورہ پہنچ گئے۔

مدینہ میں آکر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مخالف گروہ نے آرام سے بیٹھنے نہ دیا . آپ کے وہ پیرو کارجو مکہ میں تھے انھیں طرح طرح کی تکلیفیں دی جانے لگیں بعض کو قتل کیا . بعض کو قید کیا اور بعض کو زد وکوب کیااور تکلیفیں پہنچائیں .پہلے ابو جہل نے اور پھر غزوہ بدر کے بعد ابوسفیان کی قیادت میں مشرکینِ مکہ نے جنگی تیاریاں کیں یہی نہیں بلکہ اسلحہ اور فوج جمع کر کے خود رسول کے خلاف مدینہ پر چڑھائی کردی۔

حضرت علی ابن ابو طالب کرم اللہ وجہہ کو جنگ کا  پہلا تجربہ  جنگ بدر میں ہوا۔اس وقت آپ کی عمر تقریباً 25 برس تھی مگر جنگ کی فتح کا سہرا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سر رہا .جتنے مشرکین قتل ہوئے تھے ان میں سے آدھے مجاہدین کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے اس کے بعد غزوہ احد، غزوہ خندق، غزوہ خیبر اور غزوہ حنین یہ وہ بڑی لڑائیاں ہیں جن میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ رہ کر اپنی بے نظیر بہادری کے جوہر دکھلائے ۔

تقریباً ان تمام لڑائیوں میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو علمداری کا عہدہ بھی حاصل رہا ۔ اس کے علاوہ بہت سی لڑائیاں ایسی تھیں جن میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو تنہا بھیجا اورانھوں نے اکیلے ان تمام لڑائیوں میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے بڑی بہادری اور ثابت قدمی دکھائی اور انتہائی استقلال، شرافت اورنفس سے کام لیاجس کا اقرار خود ان کے دشمن بھی کرتے تھے۔

حضرت فاطمہ زہرہ  رضی اللہ تعالٰی عنہ  اور حضرت علی   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کی زندگی گھریلو زندگی کا ایک بے مثال نمونہ تھی۔  وہ گھر دنیا کی اسائشوں سے دور اور راحت طلبی سے بالکل علیحدہ تھا , محنت اور مشقت کے ساتھ ساتھ دلی اطمینان اور  آپس  کی محبت واعتماد کے لحاظ سے ایک جنت بناہوا تھا، جہاں سے علی کرم اللہ وجہہ صبح کو مشکیزہ لے کر جاتے تھے اوریہودیوں کے باغ میں پانی دیتے تھے اور جو کچھ مزدوری ملتی تھی اسے لا کر گھر پر دیتے تھے .بازار سے جو خرید کرحضرت فاطمہ   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کو دیتے تھے اور حضرت فاطمہ  چکی پیستی , کھانا پکاتی او رگھر میں جھاڑو دیتی تھیں , فرصت کے اوقات میں چرخہ چلاتی تھیں اور خود اپنے اور اپنے گھر والوں کو لباس کے لیے اور کبھی مزدوری کے طور پر سوت کاتتی تھیں اور اس طرح گھر میں رہ کر زندگی کی مہم میں اپنے شوہر کاہاتھ بٹاتی تھیں ۔

حضرت عثمان ذوالنورین کی شہادت  کے بعد  ۳۵ہجری میں آپ مسند خلافت پر آپ جلوہ افروز ہوئے اور چار سال آٹھ ماہ اس منصب پر فائز رہے۔

ترمذی شریف میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا۔"میں علم کا مکان ہوں اور حضرت علی کرم اللہ وجہ اس کا دروازہ ہے"۔اسی طرح آپ ﷺ نے غدیر کے مقام پر فرمایا۔"جس کا میں مولا ہوں علی اس کا مولا ہے"۔

حضور ﷺ نے جس وقت آپ کو تلقین ذکر فرمائی اور خرقہ ولایت عنایت فرمایا ۔حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں کہ اس وقت حضور ﷺ نے وہ  رموز و اسرار مجھ پر منکشف فرمائے جو نہ جبرائیل   رضی اللہ تعالٰی عنہ   کے پاس اور نہ  میکا ئیل   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کے پاس ہیں۔حضرت ابن عباس نے عرض کی یا امیر المو منین یہ کس طرح ؟ آپ نے  فرمایا  کہ معراج کی شب جبرائیل   رضی اللہ تعالٰی عنہ   ایک مقا م خاص پر آ کر ٹھہر گئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہمارے لیے یہ جگہ مقرر ہے ۔ اس سے آگے ہم نہیں جا سکتے۔تو جہا ں جبرائیل   رضی اللہ تعالٰی عنہ  نہ پہنچ سکے وہاں حضور ﷺ پہنچے اور وہاں حضور کو جو علم عطا ہوئے ۔ ان میں سے مجھ پر انکشاف کیا گیا۔

حضرت علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ اپنی مشہور زمانہ کتاب کشف المحجوب میں فرماتے ہیں کہ "سوختہ آتش ولایت  تمام اولیا و اصفیا کے پیشوا ابوالحسن علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہ ہیں جن کو تصوف میں شان عظیم اور بلند رتبہ حاصل تھاحضرت خواجہ جنید بغدادی ؒ فرماتے ہیں  کہ "حضرت علی اس طریقت میں ہمارے امام ہیں"۔

حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ  اپنے مکتوبات میں لکھتے ہیں کہ۔"جس کو بھی فیض و ہدایت  ملتی ہے حضرت علی کے واسطہ سے ملتی ہے۔آپ اس راہ کے نقطہ انتہائی کے قریب ہیں اور اس مقام کا مرکز آپ ہی کی ذات سے تعلق رکھتا ہے۔

آپ ۱۹ رمضان المبارک  ۴۰ ہجری میں ابن ملجم کے ہاتھوں  مسجد میں زخمی ہوئے اور ۲۱ رمضان المبارک ۴۰ ہجری بمطابق  ۴ فروری ۴۴۱ عیسوی  کو آپ اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔اس وقت آپ کی عمر ۶۳ سال تھی حضرت امام حسن   رضی اللہ تعالٰی عنہ  نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔آپ کا مزار مبارک نجف اشرف  میں ہے۔